
افغان صدارتی انتخاب: کیا اُمیدوار نتائج قبول کر لیں گے؟
افغانستان میں ہفتے کے روز ہونے والے صدارتی انتخاب میں ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس مرتبہ صدارتی انتخاب میں انتخابی عملے اور سیکورٹی حکام کی کارکردگی گذشتہ انتخاب کی نسبت بہتر رہی، اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ نتائج کے اعلان کے بعد اختلاف کی صورت میں ملک مذید افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔ ووٹنگ کے دوران وائس آف امریکہ کی ٹیم نے دارالحکومت کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں بہت سے ایسے پولنگ سٹیشن دیکھے جہاں کوئی بھی ووٹ کاسٹ نہ ہوا اور بیلٹ بکس خالی رہے۔ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ووٹنگ کی شرح بیس فیصد سے بھی کم رہی جو افغانستان کی تاریخ کی کم ترین سطح ہے۔ ووٹنگ میں لوگوں کی دلچسپی کم ہونے کی وجوہات طالبان کی طرف سے حملوں کی دھکیاں، اُمیدواروں میں لوگوں کا عدم اطمنان اور دو مرتبہ ملتوی ہونے والے ان انتخابات کے حتمی انعقاد کے حوالے سے غیر یقینی پن بتائی جاتی ہیں۔ واشنگٹن میں معروف تھینک ٹینک ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اس صدارتی انتخاب میں کم تعداد میں ووٹ پڑنے کی دو کلیدی وجوہات ہیں؛ اول یہ کہ تشدد کا مسلسل خطرہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور دوسرے سیاسی لیڈروں میں لوگوں کے اعتماد کی کمی ہے۔ اب جبکہ ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے، افغانستان میں صدارتی انتخاب کی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کے خدشات محسوس کیے جا رہے ہیں کہ نتائج کے اعلان کے حوالے سے کسی تنازعے کی صورت میں ملک بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ افغانستان کے سابق جنگی سالار اور صدارتی اُمیدوار گلبدین حکمتیار سمیت کچھ اُمیدوار ایسی صورت حال کی پیش بندی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکمتیار کا کہنا ہے، ’’اس انتخاب کے نتیجے میں ملک میں تشدد بڑھے گا۔ وسیع پیمانے پر دھاندلی کرنے والوں کے علاوہ کوئی بھی اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔ یوں حالات کا نتیجہ شدید بحران کی صورت میں برآمد ہو گا۔‘‘ افغانستان میں ووٹوں کی گنتی کا عمل خاصا طویل ہوتا ہے کیونکہ مواصلاتی نظام کے فقدان کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں سے بیلٹ بکسوں کے پہنچنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ یوں ابتدائی نتیجے کے سامنے آنے میں بھی کئی ہفتے لگ جائیں گے۔ افغان الیکشن کمشن کے سیکٹری حبیب الرحمان کا کہنا ہے، ’’اس بارے میں قانون بالکل واضح ہے۔ اگر دھاندلی ہوتی ہے تو اُمیدوار اور اُن کے حامی انتخانی شکایات کے کمشن سے رجوع کر سکتے ہیں۔ یہ کمشن ہی اُن شکایات کے بارے میں فیصلہ دے گا اور الیکشن کمشن اس کے فیصلے کا پابند ہو گا۔‘‘ گذشتہ صدارتی انتخاب کے دوران بھی دھاندلی کے الزامات سامنے آئے تھے جن سے ملک میں تقسیم اس قدر واضح ہو گئی تھی کہ بالآخر اس تعطل کو دور کرنے کیلئے اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔ اُن کی کوششوں سے ہونے والے سمجھوتے کے نتیجے میں دو کلیدی اُمیدواروں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے ساتھ حکومت وجود میں آئی تھی جس میں اشرف غنی نے منصب صدارت سنبھالا اور عبداللہ عبداللہ ملک کے چیف ایگذیکٹو بنے۔ ہفتے کے روز ہونے والے صدارتی انتخاب میں بھی بظاہر یہی دونوں اُمیدوار کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مرتبہ صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کیلئے انگلیوں کے نشانات اور ووٹرز کی تصاویر سمیت سخت نظام رائج کیا گیا، تاہم بعض حلقوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات پہلے ہی سے منظر عام پر آنے شروع ہو چکے ہیں اور اگر ایسی آوازیں بڑھتی چلی گئیں تو بحران کی سی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ تاہم انتخابی اور سیکورٹی حکام دونوں کا اصرار ہے کہ وہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/2omLAzP
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/2omLAzP
0 Response to "افغان صدارتی انتخاب: کیا اُمیدوار نتائج قبول کر لیں گے؟"
Post a Comment