
چین، بھات تنازع، کیا جنوبی ایشیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے؟
بھارت اور چین کے درمیان لداخ کے معاملے پر کشیدگی اور جھڑپوں کے بعد جنوبی ایشیا کے ملکوں اور امریکہ کے تعلقات بھی نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ امریکی حکام نے خطے میں کشیدگی کا ذمہ دار چین کو ٹھیراتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سمیت ملائیشیا، انڈونیشیا اور فلپائن جیسے ملکوں کو چین سے خطرہ ہے۔ مائیک پومپیو نے چند روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ان خطرات کے پیشِ نظر امریکہ اپنی افواج کی عالمی تعیناتی کا جائزہ لے رہا ہے۔ وہ یوروپ میں اپنے فوجیوں کی موجودگی میں تخفیف کر کے انہیں دوسرے مقامات پر تعینات کرے گا تاکہ درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ایک وقت تھا جب جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک بھارت اور پاکستان دو الگ الگ کیمپوں کے رکن مانے جاتے تھے۔ بھارت سوویت یونین موجودہ (روس) کے ساتھ تھا تو پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ عالمی حالات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ کئی حلیف حریف اور کئی حریف حلیف بن گئے۔ سوویت یونین کے خصے بحرنے ہونے کے بعد کے ٹوٹنے اور اس کی طاقت کے کمزور پڑنے کے ساتھ ساتھ خطے کی صورت حال میں تبدیلی آئی اور رفتہ رفتہ بھارت امریکہ کے قریب ہوتا چلا گیا۔ آج دونوں میں بہت گہرے تعلقات ہیں اور ان میں اسٹریٹجک رشتہ قائم ہے۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور میں بھارت اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جوہری تعاون معاہدہ کے ساتھ اسٹریٹجک اور وسیع تر تعلقات کے قیام کی جو بنیاد رکھی گئی تھی وہ نریندر مودی کے دور میں کافی مضبوط ہو ئی ہے۔ نریندر مودی نے ”ہاوڈی مودی“ اور ”نمستے ٹرمپ“ جیسے پروگراموں کی مدد سے باہمی رشتے کو اور مستحکم کر دیا ہے۔ اب حالیہ دنوں میں جنوبی ایشیا میں جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کے پیش نظر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہاں ایک بار پھر دو کیمپ بن رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کیا ایک کردار بدل گیا ہے۔ یعنی اب روس کے بجائے چین آگیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا میں دو کیمپ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک کیمپ امریکہ اور بھارت کا اور دوسرا پاکستان اور چین کا۔ بھارت اور چین میں تازہ سرحدی کشیدگی کے درمیان امریکہ کی جانب سے بھارت کی حمایت میں متعدد بیانات سامنے آئے ہیں۔ ادھر دہشت گردی کے معاملے پر بھی امریکہ کے بیانات بھارت کے لیے تقویت کا باعث بنے ہیں۔ انھوں نے یہ بات بروسلز فورم میں جس سے انھوں نے ورچوول خطاب کیا تھا، ایک سوال کے جواب میں کہی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکہ جرمنی میں اپنی افواج کی تعداد میں کیوں تخفیف کر رہا ہے تو انھوں نے کہا کہ وہاں سے فوجیوں کو ہٹا کر دیگر مقامات پر تعینات کیا جائے گا۔ ان کے مطابق چین کی حکمرا ںکمیونسٹ پارٹی بھارت، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے لیے خطرہ ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی وہ بھارت چین سرحدی کشیدگی کے لیے چین پر تنقید کر چکے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو امریکہ کے بیانات چین کے خلاف اور بھارت کی حمایت میں ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وہ دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان کو ہدف تنقید بناتا ہے اور یہ شکوہ کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اسے جو کارروائی کرنی چاہیے وہ نہیں کر رہا ہے۔ بھارت بھی دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان پر الزام عاید کرتا ہے۔ حالانکہ پاکستان اس کے الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔ ادھر پاکستان اور چین کے رشتے کافی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ چین نے متعدد مواقع پر اور عالمی فورموں پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ خواہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا معاملہ ہو یا جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا معاملہ ہو۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا معاملہ ہو یا دوسرے معاملات ہوں، دونوں نے باہمی دوستی کا بارہا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا جنوبی ایشیا میں دو کیمپ معرض وجود میں آرہے ہیں۔ بھارت کے ایک سابق سفیر اور تجزیہ کار راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان کے درمیان اتحاد کا قائم ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن بھارت کا معاملہ دوسرا ہے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”1947 سے ہی بھارت ہر معاملے میں ایک آزادانہ موقف رکھتا آیا ہے اور وہ اب بھی اسی پر قائم ہے۔ وہ کسی ملک کے ساتھ کوئی ایسا اتحاد قائم کرے گا کہ وہ کیمپ کی شکل لے لے، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا“۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں امریکہ کا جھکاو ¿ بھارت کے موقف کی جانب ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ ان کے بقول صدر ٹرمپ بھی بھارت چین کشیدگی کے سلسلے میں بھارت کی حمایت میں بیان دے چکے ہیں۔ اسی درمیان دہشت گردی کے معاملے پر امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جو سالانہ رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں پاکستان پر الزام عاید کیا گیا ہے کہ اس نے افغانستان اور بھارت کے خلاف سرگرم دہشت گردوں اور ممبئی حملوں کے ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ پاکستان نے اس رپورٹ پر اظہار مایوسی کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کو بھارت کے تناظر میں دیکھتا ہے؟ عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے ممبئی کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار حسن کمال اس سے متفق نہیں ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دو کیمپ بن رہے ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ امریکہ جنوبی ایشیا سے نکل چکا ہے اب وہ یہاں نہیں آئے گا۔ انھوں نے مائک پومپیو کے بیان کے حوالے سے کہا کہ دراصل امریکہ جرمنی سے اپنی فوج کو نکالنا چاہتا ہے اسی لیے انھوں نے اس قسم کا بیان دیا ہے۔ حسن کمال کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ بھارت اور چین کے درمیان مفاہمت کرانے کی بات کرتے ہیں لیکن چین کی حرکت کی مذمت نہیں کرتے۔ ان کے مطابق امریکہ کی جانب سے بیان بازی ہوتی رہتی ہے۔ صدر ٹرمپ کبھی کوئی بیان دیتے ہیں تو کبھی کوئی۔ لیکن ایک اور تجزیہ کار اے یو آصف کسی حد تک خیمہ بندی کی بات کو تسلیم کرتے ہیں تاہم یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ کا نعرہ ”امریکہ فرسٹ“ ہے۔ لہٰذا امریکہ اپنے مفادات کو سامنے رکھے گا اور ان کے مطابق ہی اقدامات اٹھائے گا۔ وہ اس سے انکار کرتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو بھارت کے تناطر میں دیکھتا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ ہر معاملے کو اپنی پالیسی کے تناظر میں دیکھتا ہے کسی اور تناطر میں نہیں۔
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/382mnO1
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/382mnO1
0 Response to "چین، بھات تنازع، کیا جنوبی ایشیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے؟"
Post a Comment