-->
میرا سڈنی میری مرضی

میرا سڈنی میری مرضی

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ کے نعرے تلے ہونے والا عورت مارچ اب بھی سڈنی میں بسے ہوئے بیشتر پاکستانیوں کو اشتعال دلارہا ہے۔ میری سڈنی سے واپسی تو گزشتہ ہفتے تھی لیکن اس شہر سے نکلنے میں ابھی کچھ وقت ہے۔ اس دوران میں نے سڈنی میں رہنے والے پاکستانیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کی۔ شہر اور شہریوں کے بارے میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟ لاہور سے تعلق رکھنے والے ان صاحب کو آسٹریلیا آئے لگ بھگ ایک دہائی ہوچکی ہے۔ وہ اور ان کے لاہوری وکیل ساتھی کو جب معلوم ہوا کہ ایک پاکستانی صحافی اس شہر میں پھنس گئی ہے تو وہ میزبانی کے لیے پیش پیش رہے۔ دونوں دوست تعلیم یافتہ ہیں اور سڈنی میں ابتدائی جدوجہد کے بعد اب کچھ مطمئن ہیں۔ دونوں اب آسٹریلوی شہری ہیں۔دونوں نام نہیں بتانے چاہتے لیکن اپنے خیالات پر فخر کرتے ہیں۔ وہ پوچھنے لگے، ’’آپ کی خلیل الرحمان قمر کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘ پھر وکیل صاحب خود ہی بولے، ’’دیکھیں عورت کو گالی بالکل نہیں دینی چاہے لیکن ماروی سرمد بھی تو حد سے بڑھ رہی ہیں نا۔‘‘ میں نے بے ساختہ پوچھا، ’’ماروی نے کیا کیا ہے؟خواتین کے حقوق ہی تو مانگ رہی ہیں۔ ‘‘ وکیل صاحب بولے، ’’ہم نہیں چاہتے کہ غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل ہو، ان کے ساتھ زیادتی ہو۔ لیکن میرا جسم میری مرضی کا کیامطلب ہے؟ کہ بس جہاں دل چاہے، وہاں مرضی چلالو۔ میں آج کپڑے نہیں پہنتی، میری مرضی۔ اب ہم اپنی بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کو تو اس راہ پر نہیں چلا سکتے کہ وہ میرا جسم میری مرضی کرتی پھریں۔ انہیں بہت عزت ملتی ہے۔ انہیں ضرورت نہیں کہ وہ اس طرح کی مہم کا حصہ بنیں۔ وہ ہماری عزت ہیں۔ وہ میرا جسم میری مرضی کو بے حیائی سمجھتی ہیں۔‘‘ پاکستانی ڈرائیور بھائی نے بھی ساتھ دیا، ’’دیکھیں، عورت کی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر وہ اسے پار کرے گی تو مرد کو غصہ تو آئے گا نا۔” میں نے پوچھا، ’’عورت کی حد کیا ہے؟” انھوں نے کہا، ’’وہ حد سے باہر نہ ہوں۔ کیا وہ مردوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتیں؟ انھیں مردوں کو غصہ نہیں دلانا چاہیے۔” وکیل بھائی بولے، “ایک بازو پر پھوڑا ہو اور آپ اس طرح پیش کریں جیسے پورا جسم ہی بیمار ہے تو یہ غلط ہے۔ مجھے لگتاہے کہ یہ عورتیں کسی مغربی ایجنڈے پر چل رہی ہے۔ یا پھر خود ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے اسی لیے اس طرح کی باتیں کررہی ہیں۔” میں نے پوچھا، ’’کیا زیادتی پر برہمی غلط ہے؟ کیا خواتین دوسری خواتین یا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بات نہیں کرسکتیں؟‘‘ جواب آیا، “ ہاں، کریں لیکن ہماری بہنوں کو بیچ میں کیوں لاتی ہیں؟” عورت مارچ کی بیشتر شرکا کا ماننا ہے کہ یہی رویے معاشرے میں عورت کے خلاف امتیازی سلوک کو جنم دیتے ہیں۔ ہوٹل کے راستے میں ایک قبرستان آیا جہاں آسٹریلیا کی تاریخ دفن ہے۔ ڈرائیور صاحب وہاں سنہ 2010 سے 2015 تک گارڈ کی نوکری کرتے رہے۔ میں کچھ دیر کے لیے وہاں رکی۔ ڈھلتے ہوئے سورج کی روشنی میں یہ قبرستان موت اور زندگی کا حسین امتزاج لگ رہا تھا۔ سڈنی کی برونٹی بیچ اور کلوولی بیچ کے درمیان واقع یہ قبرستان چالیس ایکڑ پر پھیلا ہے۔ اس میں مشہور آسٹریلوی شاعر ہیری لاسن اور ہنری کینڈل سمیت مختلف شاعر، سیاست داناور کھلاڑیوں کی آخری آرام گاہیں ہیں۔ ڈرائیور صاحب نے ایک قبر دکھائی جس میں ریاست کے لیے جلاد کی ذمے داری ادا کرنے والے ایک شخص دفن ہیں۔ ان کی بغل میں وہ قاتل سوئے ہوئے ہیں جنھیں اس جلاد ہی نے یہاں پہنچایا۔ اس شہر خموشاں کے ایک جانب جتنی جاگتی آبادی ہے جس کے کچھ لوگ جو شام کو یہاں ورزش کرنے آتے ہیں۔ سیاح بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ڈرائیور صاحب کو یقین ہے کہ یہاں دفن لوگ رات گئے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد میں نے دونوں پاکستانی صاحبان سے اجازت لی۔ اگلی کہانی آپ کو سناؤں گی سڈنی میں واقع اس بیچ کی جو خوبصورتی کے لیے مشہور ہے لیکن جہاں ہر سال چالیس پچاس افراد چٹان کی بلندی سے چھلانگ لگاکراپنی جان لے لیتے ہیں۔ اسے خودکشی کرنے والوں کے ساحل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

from دنیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/2wUa1c2

Related Posts

0 Response to "میرا سڈنی میری مرضی"

ads

ads 2

Iklan Tengah Artikel 2

ads 3