
بھارتی کشمیر کی آٹھ سالہ بچی کی آبرو ریزی اور قتل، چھ ملزموں کو مجرم قرار دے دیا گیا
بھارتی پنجاب کے شہر پٹھان کوٹ میں قائم کی گئی ایک خصوصی عدالت نے پیر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں جنوری 2018ء میں ایک آٹھ سالہ خانہ بدوش بچی کی عصمت دری اور قتل کے کیس میں سات میں سے چھ ملزموں کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ مجرم قرار دئے گئے افراد میں کٹھوعہ کے رسانا گاؤں کا سربراہ سانجی رام، دو اسپیشل پولیس آفیسرز (ایس پی اوز) دیپک کھجوریہ اور سریندر ورما، ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتا شامل ہیں۔ اس کیس کے ساتویں ملزم، جو نابالغ ہے، کے خلاف الگ سے بچوں کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا جبکہ آٹھویں ملزم کو عدالت نے بری قرار دیا ہے۔ توقع ہے کہ عدالت مجرموں کو پیر کی سہ پہر کو سزائیں سنائے گی۔ رسانہ کی خانہ بدوش کم سن لڑکی 17جنوری 2018ء کو اچانک لاپتا ہو گئی تھی۔ ایک ہفتے بعد اُس کی لاش گاؤں کے مضافات میں جھاڑیوں میں ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی طرف سے کی گئی تحقیقات کے مطابق نشانہ بننے والی لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اُسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اُس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ اس گھناؤنی حرکت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں پولیس نے فوری طور پر مندر کے نگراں سانجی رام اور اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریہ سمیت چھ افراد کو گرفتار کیا تھا۔ مقامی پولیس کے سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو بعد میں کیس سے متعلق ثبوت مٹانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا اور اس کے ساتھ ہی نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کی کرائم برانچ، جسے تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا، چند اور گرفتاریاں عمل میں لائی تھی۔ پولیس نے رات کی تاریکی میں کٹھوعہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے گھر جا کر کیس کے سلسلے میں فردِ جرم دائر کی تھی کیونکہ مقامی ہندو وکلا نے دن کے دوران عدالت کے باہر ہنگامہ کیا تھا اور پولیس کو فردِ جرم دائر کرنے سے زبردستی روکا تھا۔ اس سے قبل ملزموں کی حمایت میں اور انھیں رہا کرنے کے مطالبے کو منوانے کیلئے علاقے میں کئی جلسے کئے گئے اور جلوس نکالے گئے تھے۔ اس طرح کے ایک جلوس کے دوران شرکاء نے بھارت کا قومی پرچم لہرایا تھا جس پر بعض حلقوں نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ ریاست کی اُس وقت کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ملزموں کی حمایت کرنے کی سرگرمی کو شرمناک اور مظاہروں کے دوران بھارت کا قومی پرچم لہرانے کو توہین آمیز قرار دے دیا تھا۔ استغاثہ کے مطابق آصفہ کے ساتھ کی گئی زیادتی اور قتل کا مقصد مقامی مسلمانوں کو، جو بکروال اور گجر طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اقلیت میں ہیں، ترکِ سکونت کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ تاہم اس گھناؤنے واقعے کے خلاف جہاں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا تھا وہیں اس کی گونج بھارت اور بھارت کے باہر بھی سنائی دی گئی تھی۔ اس کیس نے جب ایک بڑے سیاسی تنازعے کی شکل اختیار کر لی اور مختلف حلقوں کی طرف سے ملزموں پر ریاست کی کسی عدالت میں مقدمہ چلانے کی صورت میں انصاف کی فراہمی کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا تو بھارتی سپریم کورٹ کے احکامات پر 31 مئی 2018ء کو پٹھان کوٹ کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں کیس کی ان کیمرہ اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی تھی۔
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ http://bit.ly/2MBK7RT
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ http://bit.ly/2MBK7RT
0 Response to "بھارتی کشمیر کی آٹھ سالہ بچی کی آبرو ریزی اور قتل، چھ ملزموں کو مجرم قرار دے دیا گیا"
Post a Comment