
'ملا عمر امریکی فوجی اڈے کے قریب مقیم رہے'
طالبان کے بانی ملا عمر کی زندگی سے متعلق شائع ہونے والی ایک کتاب میں دعوی ٰ کیا گیا ہے کہ طالبان کے سربراہ افغانستان میں امریکہ کے فوجی اڈے کے قریب کئی سالوں تک مقیم رہے۔ واشنگٹن کا خیال تھا کہ ملا عمر فرار ہو کر پاکستان چلے گئے تھے تاہم ان کی زندگی سے متعلق شائع ہونے والی کتاب میں بتایا گیا کہ درحقیقت وہ 2013ء میں اپنی موت تک اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے فوجی اڈے کے قریب رہائش پذیر رہے۔ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے صحافی بیٹی ڈم نے اپنی کتاب "دشمن کی تلاش" میں انکشاف کیا ہے کہ طالبان سربراہ تنہائی میں زندگی بسر کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گھر والوں سے بھی ملاقات نہیں کرتے تھے بس ایک کتاب پر ایک خیالی زبان میں کچھ تحریر کرتے رہتے تھے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے ' اے ایف پی' کے مطابق ڈم پانچ سال تک اپنی کتاب کے لیے مواد حاصل کرتے اور اس پر تحقیق کرتے رہے ۔ انہوں نے ملا عمر کے محافظ جبار عمری کا انٹرویو کیا جنھوں نے طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ناصرف انہیں چھپائے رکھا بلکہ ان کی حفاظت بھی کی۔ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملا عمر شام کو بی بی سی پشتو سروس پر نشر ہونے والی خبریں سنتے تھے لیکن جب انہوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر سنی تو اس کے باوجود بھی انہوں نے اس پر تبصرہ نہیں کیا۔ 2001ء میں امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان میں طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد امریکہ نے ملا عمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔ ڈم نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کے بعد ملا عمر زابل کے دارالحکومت قلات میں ایک چھوٹے سے احاطے میں مقیم رہے۔ اسی احاطے میں مقیم ایک خاندان نے اپنے پراسرار مہمان کی شناخب کبھی ظاہر نہیں کی تاہم امریکی فورسز دو مرتبہ ان کی تلاش کے قریب پہنچیں تھیں۔ ایک موقع پر امریکہ کی ایک گشتی ٹیم اس وقت احاطہ کے قریب پہنچی جب عمر اور عمری وہاں موجود تھے اس وقت یہ دونوں افراد لکڑیوں کے گٹھے کے پیچھے چھپ گئے اور امریکی فوجی احاطے میں داخل ہوئے بغیر وہاں سے گزر گئے۔ دوسرے موقع پر امریکی فوجیوں نے گھر کی تلاشی بھی لی لیکن ان کے بند کمرے کے اندر داخل نہیں ہوئے مگر یہ واضح نہیں کہ تلاش کا یہ عمل ایک معمول کی کارروائی تھا یا یہ کارروائی کسی خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ ملا عمر نے اس وقت یہ جگہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب 2004ء میں امریکہ نے لغمان میں اپنا فارورڈ آپریٹنگ بیس ان کے ٹھکانے سے صرف چند سو میڑ کے فاصلے پر تعمیر کرنا شروع کیا۔ جب پینٹاگون نے ولورین میں اپنا فارورڈ آپریٹنگ بیس تعمیر کر لیا تو ملا عمر ایک دوسری عمارت میں منتقل ہو گئے۔ اس فوجی اڈے پر تقریباً ایک ہزار فوجی مقیم تھے اور بسا اوقات وہاں امریکہ اور برطانیہ کی اسپیشل فورسز بھی موجود رہتی تھیں۔ پکڑے جانے کے خطرے کے باوجود ملا عمر نے دوبارہ یہاں سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کا خطرہ مول نا لیا اور وہ باہر نہیں نکلتے تھے اور بعض اوقات وہ ایسی سرنگوں میں چھپے رہے جن کے اوپر سے امریکی طیارے پروزار کرتے رہے۔ ملا عمر کی قیادت میں طالبان 1996ء سے 2001ء کے دوران افغانستان میں اقتدار میں رہے اور اس کے بعد سے طالبان افغان حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ 2001ء کے بعد سے ملا عمر نے طالبان کے انتظامی امور کی ذمہ داری دیگر رہنماؤں کو تفویض کر دی تھی۔ طالبان نے 2013ء میں ان کی وفات کے بعد دو سال تک ان کی موت کی خبر کو راز میں رکھا۔ ہالینڈ کے صحافی کی اس کتاب میں کئے گئے دعوؤں پر تاحال کسی امریکی عہدیدار کا رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/2TBVjQX
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/2TBVjQX
0 Response to "'ملا عمر امریکی فوجی اڈے کے قریب مقیم رہے'"
Post a Comment