
امریکی صحافی ابو عاقلہ کے قتل پر امریکی ردعمل
فلسطینی امریکی صحافی شیرین ابوعاقلہ کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ مئی میں مغربی کنارے کے علاقے جنین میں اسرائیلی حملے کی کوریج کر رہی تھیں، اس قتل پر دنیا بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا ۔ پیر کے روز، اسرائیلی دفاعی افواج نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس بات کا ،بہت زیادہ امکان ہے کہ مشتبہ فلسطینی بندوق برداروں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں اس کے فوجیوں نے غلطی سے ابو عاقلہ کو گولی مار دی ہو۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ اس میں ملوث فوجیوں میں سے کسی کے خلاف مجرمانہ الزامات کی پیروی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ابو عاقلہ کے خاندان نے اسرائیل کےموقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ابو عاقلہ نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر واضح طور پر "پریس" کا لیبل لگا ہوا تھا۔ ابو عاقلہ کی بھانجی لینا ابوعاقلہ نے اسکائپ کے ذریعےوائس آف امریکہ سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اور اس کے ساتھی جو وہاں موجود تھے، ان سب نے پریس کی جیکٹیں پہن رکھی تھیں اور ملٹری نے ان سب کی اس وقت جانچ پڑتال کی تھی جب وہ جائے وقوعہ پر جا رہے تھے۔ وہاں کوئی مقابلہ نہیں ہو رہا تھا لیکن پھر اچانک ان پر مسلسل گولیاں چلائی گئیں ، اور شیرین کو ا ن کے سر کے بالکل نیچے ہیلمٹ اور اس کی جیکٹ کے درمیان، گولی مار دی گئی۔ درست نشانہ لے کر ان کو گولی ماری گئی یہ محض اتفاق نہیں تھا یہ افسوس ناک بات ہے کہ آج تک کسی کی جوابدہی نہیں ہوئی اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ محکمہ خارجہ کے نامہ نگاروں نے یہ سوال کیا کہ امریکہ ایک امریکی شہری کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل کو کیوں نہیں ٹھہرا رہا ۔ محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے جواب میں کہا: ہم اعلیٰ ترین سطح پر اسرائیل پر براہ راست اور قریبی ذرائع سے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسیوں اور طرز عمل کا جائزہ لے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔ لینا ابو عاقلہ کے لیے امریکی ردعمل تسلی بخش نہیں تھا۔وہ کہتی ہیں کہ جہاں تک ہمارا مطالبہ ہے امریکی تحقیقات ضروری ہے جو اپنے ہی ایک شہری کے قتل کا ذمہ دار اسرائیلی فوج کو ٹھہرائے ۔ یہ ان کا فرض ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ اور احتساب کے بغیر استثنیٰ کے خاتمے کے بغیر پالیسیوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی صحافت کے کچھ حامیوں نے بھی محکمہ خارجہ سے کہا ہے کہ وہ صحافیوں کے قتل پر خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا۔ ولیم میک کیرن نیشنل پریس کلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ان کا کہناتھا کہ ہمیں تشویش ہے کہ" اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ عام طور پر پریس کی آزادی سے متعلق جو اچھی بیان بازی کرتا رہتا ہے اس کے اور ان کے اقدامات کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے"۔اور اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ وہ اچھے بیانات تو دے رہے ہیں ، لیکن وہ ضروری اقدامات نہیں کر رہے جو یہ یقینی بنائیں کہ یہ قتل یا اس طرح کی ہلاکتیں ان کا استثنا نہیں ہیں اور اگر اس پر کارروائی نہ کی گئی تو دوسرے صحافیوں کے لیے واضح خطرات موجود ہیں۔ ابوعاقلہ کے اہل خانہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور آزادی صحافت کے کارکن امریکہ، بین الاقوامی فوجداری عدالت اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات کریں اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ وائس آف امریکہ کے لئے سنڈی سین کی رپورٹ۔
from امریکہ - وائس آف امریکہ https://ift.tt/jrTXz0C
from امریکہ - وائس آف امریکہ https://ift.tt/jrTXz0C
0 Response to "امریکی صحافی ابو عاقلہ کے قتل پر امریکی ردعمل"
Post a Comment