
احتجاج نظر انداز، بھارتی صدر نے متنازع شہریت کے قانون کی منظوری دے دی
بھارت میں شدید احتجاج کے باوجود دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والے 'شہریت ترمیمی بل' پر صدر رام ناتھ کووند نے دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد یہ بل باقاعدہ طور پر قانون کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جمعرات کو متنازع بل کے خلاف ریاست آسام کے مختلف شہروں میں لوگوں نے شدید احتجاج کیا۔ اس دوران مظاہرین نے سرکاری عمارتوں پر حملے بھی کیے۔ مشتعل افراد نے ایک ریلوے اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور کئی زخمی بھی ہوئے۔ مظاہرین کا مؤقف ہے کہ شہریت ترمیمی قانون سے ریاست آسام میں مقیم غیر قانونی مہاجرین کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ بھارت کے راشٹراپتی بھون (ایوان صدر) سے جمعے کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق صدر رام ناتھ کووند نے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں سے منظور ہونے والے 'سٹیزن شپ' ترمیم بل پر دستخط کر دیے ہیں۔ بھارت کے نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹو ڈے' کے مطابق نئے قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کر کے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بدھ مت، جین ازم، پارسی اور مسیحی مذاہب کے ان افراد کو شہریت دی جائے گی جو 2014 سے قبل بھارت آئے ہوں یا وہ چھ برس تک بھارت میں مقیم رہے ہوں۔ بھارت کے نئے قانون کے تحت تین مسلم اکثریتی ممالک سے نقل مکانی کرنے والے غیر مسلم افراد کو ترجیحی دی گئی ہے۔ بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں آباد شہریوں میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آنے والے ہندو افراد کو نئے قانون کے تحت شہری مل جائے گی۔ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یہ بل 2016 میں بھی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں پیش کیا تھا تاہم اس وقت بل راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) میں منظور نہیں ہو سکا تھا۔ بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جب کہ شمالی مشرقی علاقوں میں بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں مسلمان ریاست آسام میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون میں مسلمانوں کا ذکر نہ ہونے پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ بھارت کے مقامی نشریاتی ادارے 'ویان' کے مطابق بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کو اس خطے میں رہتے ہوئے دہائیاں ہو گئی ہیں تاہم ان کو شہریت نہیں دی گئی بلکہ نیشنل رجسٹریشن (این آر سی) کے تحت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جا رہا ہے۔ رواں سال اگست میں بھی یہ تنازع سامنے آیا تھا کہ جب این آر سی کا اجرا ہوا تو اس میں 20 لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، یعنی یہ افراد بھارت کے شہری تسلیم نہیں کیے گئے تھے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان میں کچھ ہندو بھی شامل تھے۔ بھارت کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش سے آئے تھے، اُنہیں بھارت میں رہنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔ واضح رہے کہ لوک سبھا (ایوان زیریں) میں پیر کو وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے متنازع شہریت ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا تھا جس پر تقریباً 12 گھنٹے تک بحث ہوئی۔ بل پیش کیے جانے کے دوران پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف اور حکومتی اراکین کے درمیان سخت جملوں کا بھی تبادلہ ہوا تھا۔ وزیرِ داخلہ امت شاہ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کانگریس نے 1947 میں مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم نہ کرائی ہوتی تو اس بل کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ بھارت کی لوک سبھا میں بل کے حق میں 311 اور مخالفت میں 80 ارکان ووٹ دیا جب کہ ایوان بالا میں یہ بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے منظور ہوا تھا۔ شنزو ایبے کا دورۂ بھارت منسوخ خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے نے بھارت میں پر تشدد احتجاج کے باعث دورۂ بھارت منسوخ کر دیا ہے۔ جاپان آسام میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کر رہا ہے۔ شنزو ایبے نے منی پور میں اس مقام کا بھی دورہ کرنا تھا جہاں جاپانی فوجی مدفون ہیں۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی فوجی آسام میں مارے گئے تھے۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کی مشترکہ فیصلے کے تحت یہ دورہ منسوخ ہوا ہے۔ شنزو ابے نے اس دورے میں وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی آسام کے شہر گوہاٹی میں ملاقات کرنی تھی۔ جہاں احتجاج کے باعث امن عامہ کی صورت حال خراب ہے۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے جمعرات سے شروع ہونے والا اپنا دورۂ بھارت منسوخ کر دیا تھا۔ عبدالمومن نے بھارت میں متنازع شہریت کے ترمیمی بل کی منظوری سے قبل بھارتی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے خطاب کا ذکر کیا جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف تفریق برتی جاتی ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی مذکورہ بل کی منظوری کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انسانی حقوق سمیت پاکستان اور بھارت کے باہمی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ نریندرمودی حکومت کا یہ اقدام 'ہندوتوا' کے پرچار کا عملی نمونہ ہے۔
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/2PEVZkt
from جنوبی ایشیا - وائس آف امریکہ https://ift.tt/2PEVZkt
0 Response to "احتجاج نظر انداز، بھارتی صدر نے متنازع شہریت کے قانون کی منظوری دے دی"
Post a Comment